Introduction of State Verb in Urdu - Hindi
صحیح انگریزی لکھنے اور بولنے
کے لیے Tenses کے صحیح استعمال کے ساتھ ساتھ
ترجمہ کرنے کا فن کا بھی معلوم ہونا بہت ضروری ہے ۔
یہ کورس اسی اہم ترین ضرورت کو پورا کرنے کے لیے بنایا گيا
ہے۔ اس میں تمام Tenses کی
بناوٹ اور اس کے استعمال کے ساتھ ساتھ ترجمہ کے میدان میں اعتماد سے آگے بڑھنے کے متعلق
تمام اصول و قواعد وضاحت سے بتائے گئے ہیں۔ اس کے پڑھنے اور ان ويڈيوز كے ديكھنے
سے ان شاء اﷲ ہر چھوٹی بڑی جماعت کے طالب
علموں کو صحیح انگریزی لکھنے اور بولنے ميں مدد ملے گی۔
Introduction of Translation
عمدہ ترجمہ کے بہترین اوصاف یہ ہیں کہ:
1. اس کا مفہوم اصل عبارت
کی جیتی جاگتی تصویر ہو۔
2. اس کے معانی اصل عبارت
سے نہ کم ہوں نہ زیادہ۔
3. اس کے الفاظ بے حد
موزوں، آسان اور ضرورت کے عین مطابق ہوں۔
4. اس کے جملے سلیس، عام
فہم اور لنگڑے لولے یا مردہ نہیں بلکہ ہر لحاظ سے جاندار ہوں۔
ان خوبیوں کے حامل ہونے کے لیے ضروری ہے کہ
ترجمہ مندرجہ ذیل اصولوں کے عن مطابق ہو۔
1. ہر ایک جملے کےاجزائے
کلام کی ترتیب Subject, Verb,
Object اپنے
اپنے صحیح مقام پر ہوں۔
2. ترجمہ ”لفظی“ نہیں
بلکہ ”معنوی“ ہو۔
3. الفاظ کا استعمال صحیح
اور ان کے ہجے درست ہوں۔
4. جملے لمبے نہیں بلکہ
چھوٹے ہوں اور وہ Indirect
Narration کے
بجائے Direct Narration میں ہوں۔
5. ان میں Punctuation Marks اور Capital
Letters صحیح
طور پر استعما ل ہو رہےہوں۔
1.
اجزائے کلام کی ترتیب
انگریزی کے مختلف قسموں کے جملوں میں اجزائے
کلام (یعنی Subject, Verb,
Object اور Extension of the Predicate
) کی ترتیب ایک دوسرے سے بالکل مختلف ہوتی ہے اور جب تک کسی فقرے میں ان اجزائے
کلام کی ترتیب درست نہ ہو، فقرے کے درست ہونے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ اس لیے
ہم سب سے پہلے ہر ایک قسم کے فقروں میں اجزائے کلام کی ترتیب کو مناسب وضاحت سے
بیان کرتے ہیں۔
1. Assertive sentences
بیانیہ (یعنی Assertive ) جملوں میں سب سے پہلے Subject آتا ہے، پھر Verb پھر Object اور سب سے آخر میں باقی ماندہ
الفاظ یعنی Extension of the Predicate۔ جیسے:
Boys play
cricket every day.
یہ فقرے ”مثبت “ (یعنی Positive یا Affirmative ) بھی ہوتے ہیں اور منفی (یعنی Negative ) بھی ہوتے ہیں۔ ان میں فرق صرف اتنا ہے کہ Affirmative فقروں میں not نہیں آتا۔ لیکن Negative جملوں میں not یا never ضرور استعمال ہوتا ہے۔
2. Imperative sentences
فعل امراور فعل
نہی کے ( یعنی Imperative ) جملوں میں سب سے پہلے Verb آتا ہے پھر Object پھر Extension of the Predicate ۔ جیسے:
3. Interrogative sentences
سوالیہ (یعنی Interrogative ) جملے دو قسموں کے ہوتے ہیں ایک وہ جملہ جن کے شروع میں Verb یا Verb
کا پہلا لفظ آتا ہے۔ اور دوسرے وہ جملے جن کے شروع میں کوئی استفہامیہ لفظ آتا ہے۔
جیسے: Who, what, why, when, where, which, whose, whom وغیرہ
پہلی قسم کے سوالیہ (یعنی Interrogative ) جملوں میں سب سے پہلے Verb یا اس کا پہلا لفظ آتا ہے، پھر Subject پھر Verb
پھر Object پھر Extension
of the Predicate ۔ جیسے:
دوسری قسم کے سوالیہ (یعنی Interrogative ) جملوں میں سب سے پہلے استفہامیہ لفظ آتا ہے، پھر Verb یا اس کا پہلا لفظ آتا ہے، پھر Subject پھر Verb پھر Object پھر Extension of the Predicate ۔ جیسے:
4. Exclamatory sentences
استعجابیہ (یعنی Exclamatory ) جملوں میں کسی بات پر اچانک بے
اختیار مسرت (Joy ) یا غم ( Sorrow
) یا افسوس ( Grief
) یا تعجب (
Surprise ) کا
اظہار پایا جاتا ہے۔ یہ جملے دو قسم کے ہوتے ہیں۔ ایک وہ جن کے شروع میں کوئی Interjection آتا ہے۔ اور دوسرے وہ جن کے شروع میں کوئی Interjection نہیں آتا۔
پہلی قسم کے فقروں میں سب سے پہلے کوئی Interjection آتا ہے پھر تمام ترتیب Assertive جملوں والی ہوتی ہے۔ جیسے:
دوسری قسم کے جملوں میں پہلے What
یا How
وغیرہ آتا ہے پھر Object پھر Subject پھر Verb
پھر Object پھر Extension
of the Predicate آتا ہے۔
جیسے:
5. Optative sentences
دعائیہ یا
تمنائیہ (یعنی Optative) جملوں میں ہمیشہ کسی ”دعا“ یا ”تمنا“ کا اظہار پایا جاتا ہے۔
”دعائیہ“ جملوں میں سب سے پہلے May
آتا ہے اور پھر تمام ترتیب Assertive جملوں والی ہوتی ہے۔جیسے:
اور ”تمنائیہ“
جملوں میں سب سے پہلے Would
that آتا ہے
اور پھر تمام ترتیب Assertive جملوں والی ہوتی ہے۔جیسے:
2.
موزوں الفاظ کا استعمال اور ان کے ہجے
انگریزی میں بے شمار الفاظ بظاہر ” ہم معنی“
معلوم ہوتے ہیں۔ لیکن در حقیقت ان کے معانی میں کچھ نہ کچھ اختلاف ضرور ہوتا ہے۔
اس لیے ترجمہ کرتے ہوئے اس اختلاف کو ہر حالت میں پیش نظر رکھنا پڑتا ہے۔
مثال کے طور پر ”بڑا“ کا مفہوم great سے بھی ادا ہوسکتا ہے، big سے بھی،
large سے بھی اور elder سے بھی۔ لیکن ذیل کے چار جملوں
میں سے ہر ایک میں ”بڑا“ کا مفہوم ادا کرنے کے لیے underlineحروف میں وہی لفظ استعمال کیا گیا ہے جس کا استعمال بالکل صحیح ہے۔ لیکن اس کی
جگہ کسی دوسرے حروف میں کا استعال بالکل غلط ہوگا۔
1.
Allama Iqbal was a great man.
2.
They were sitting in a very large room.
3.
This ship is not at all so big as I thought it to be.
4.
He is my elder brother.
پھر انگریزی میں ایسے الفاظ بھی ہیں جو ہم
آواز تو ہیں لیکن ان کے ہجے مختلف ہیں اور معانی بھی۔
1.
This is an interesting story. I live in the second storey of
that house.
2.
He is weak in English. She will stay in Pakistan for a week
only.
3.
They were only eight in number. We ate no rice yesterday.
غور کیجیے کہ ہر جملے کے بولڈ لفظ ہم آواز
ہیں لیکن ان کے معنی میں فرق ہے۔ اس لیے معانی کے مطابق موزوں الفاظ کا انتخاب اور
ان کے ہجوں کی درستگی بہت اہمیت رکھتی ہے۔
4.
چھوٹے چھوٹے فقرے
لمبے لمبے جملے عموماً غلط ہوجاتے ہیں۔ لیکن
ان کے مقابلے میں چھوٹے چھوٹے فقرے بن بھی آسانی سے جاتے ہیں اور ان کے غلط ہونے
کا کوئی احتمال بھی نہیں ہوتا۔ اس کی
وضاحت درج ذیل مثال ہوجائے گی۔
A Long Sentence: The old man
who was standing there was not in his senses, because his only son whose
marriage was celebrated last year, died of heart failure yesterday.
Short Sentence: The old man
was standing there. He was not in his senses. His only son was married last
year. But he died of heart failure yesterday.
اس لیے ترجمہ کرتے ہوئے اگر کسی بڑے فقرے سے
پالا پڑ بھی جائے تو اسے حسب ضرورت تین چار چھوٹے چھوٹے فقروں میں پھیلا کر ان کا
ترجمہ کر لیجیے۔
5.
Direct & Indirect Narration
جب کسی جملے کا ترجمہ Indirect
میں کیا جائے تو وہ بہت پیچیدہ ہوجاتا ہے کیوں کہ اردو سے انگریزی میں ترجمہ کرنے
کے عام اصولوں کے علاوہ عبارت کو Direct Narration
سے Indirect Narration میں تبدیل کرنے کے تمام قاعدوں کی پابندی بھی کرنا پڑتی ہے۔ لیکن اس
کا Direct Narration میں ترجمہ کرتے ہوئے ایسی کوئی
مشکل پیس نہیں آتی۔
اردو کی عبارت: خاور نے کہا تھا کہ میں نے
آج ایک نئی کتاب خریدی ہے۔
Direct Narration: Khawar
said, “I have bought a new book today.”
Indirect Narration: Khawar
said that he had bought a new book that day.
6.
اوقاف کا استعمال اور درست ہجے
اوقاف کے صحیح استعمال سے جملے کا مفہوم
بالکل واضح ہوجاتا ہے اور درست ہجے عبارت کے حسن کو دوبالا کردیتے ہیں۔
My frend akbar and i went to krachi in the fist weak of decamber.(Incorrect)
My friend Akbar and I went to Karachi in the first week of December.
(Correct)
No comments